اُمراء اور بادشاهُوں کی اصلاح
حضرت غوث العالم نے امراء و بادشاہوں و سلاطین زمانہ اور اربابِ اقتدار کی اصلاح بھی فرمائی ہے اور انہیں ضروری ہدایات دی ہیں۔ چنانچہ”لطائف اشرفی“ کے ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں کہ جہاں داری اورشہریاری | کو چار چیزوں سے نقصان پہنچتا ہے:
(۱) سلاطین زمانہ کالذت دنیا میں غرق ہو جانا۔
(۲) اپنے مقربین سے بداخلاقی سے پیش آنا۔
(۳) سزا میں زیادتی کرنا۔
(۴) رعایا پر ظلم کرنا۔
آپ نے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اوقات کے نظم وضبط کی تفصیل بھی بتائی ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے مشاغل کوکس طرح ترتیب دیں؟ اور بعض ضروری اور مفید ہدایتیں بھی دی ہیں۔”لطائف اشرفی“ میں ہے کہ:
”بادشاہ اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد اشراق تک وظیفہ کریں، پھر علماء وصلحاء کے ساتھ صحبت رکھیں اور چاشت کے وقت تک ان سے عدل و انصاف سے متعلق قرآنی آیتوں کے مطالب پوچھیں، اسی جگہ وزیروں اورندیموں کو بلائیں اوریہ لوگ فوجوں کے جومعروضات پیش کریں ان کا مناسب جواب دیں، ہر شخص کی مدعا کو پورا کریں، اس کے بعد در بارعام ہو، جس میں رعایا اور مسلمانوں کے قضایا اور دعاوی پیش ہوں اورشریعت کے مطابق انصاف کیے ساتھ فیصلہ ہو، مشائخ اور ملوک کے معروضات کو حتی الوسع کسی کے توسط سے سنیں، سادات قضاۃ اورمشائخ کی درخواستوں کو صدر پہونچائے، اس گروہ کے لیے ایک ایسے شخص کو صدرمقرر کریں جو متدین اورہمدردہو، بلکہ اس کو صوفی مشرب بھی ہوناچاہیے، وزیر تمام علوم وفنون سے آراستہ ہونے کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ دیندار ہو، وکالت کا منصب ایسے شخص کو دیں جو پسندیدہ اخلاق کا حامل ہو، نہایت عقلمند، سریع الفہم اورحاضر جواب ہو، اس قسم کے ہر شخس کو کوئی نہ کوئی مناسب جگہ دیں،حکومت کو چلانے میں تخلیط مناصب سے کام نہ لیں، ایک کے کام کے متعلق دوسرے سے نہ پوچھیں، قیلولہ کے وقت آرام کے لیے چلے جائیں، قیلولہ کے بعد نماز پڑھیں اورکبھی نماز نہ چھوڑیں، ظہر کی نماز کے بعد جس قدر ہو سکے قرآن مجید کی تلاوت کریں، خصوصاً سورۂ قد سمع اللہ کی مواظبت کریں؛ کیونکہ سلاطین اس سورہ کی مواظبت کرتے آئے ہیں، سلطان محمودغازی انار اللہ برہانہ* برابر اس سورہ کوپڑھا کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مجھ کو دولت اور شوکت اسی سورہ کی بدولت نصیب ہوئی، حضرت ابراہیم شاہ بھی ایسا ہی فرماتے تھے، خود میں نے جو سلطنت چھوڑی تو پہلی چیز میں نے اپنے برادرعزیزمحمد شاہ سے کہی وہ یہ تھی کہ اس سورہ کی برابر تلاوت کریں۔ اور رجال الغیب کے مقابلے سے اجتناب کریں، اور کوئی کام شریعت کے خلاف انجام نہ دیں، اور عدل و انصاف کے اصول میں ایک نقطہ سے بھی انحراف نہ کریں تاکہ سلطنت میں خلل واقع نہ ہو“۔
”لطائف اشرفی“ کے ایک اورملفوظ میں فرماتے ہیں کہ:۔
”تمام ارکانِ دولت اوراعوانِ حکومت ایک نہ ایک عضو اور ایک نہ ایک حاسہ یا قوت کے مرتبہ میں ہیں مثلاً:مستوفی، مشرب، ناظر، عارض، تغرائی، منشی، دبیر، حاجب، خازن، استادالدار اور دوسرے عہدیدار، حواس خمسہ اور قوی بشری مثلاً آنکھ، کان، ناک زبان، لمس، فکر، خیال، وہم، حافظہ، ذاکرہ اور حس مشترک کے مانند ہیں، امرائے سلطنت اپنی قوت، شوکت، ہمت رجولیت وغیرہ کے ساتھ اعضائے رئیسہ ہیں،اور ادنی درجے کے امراء مثل ہاتھ، بازو، ران، پنڈلی اور پاؤں کے ہیں، حاشیہ نشیں قوم اورعام رعایا وغیرہ اپنے مدارج کے مطالق رگ اور پٹھے وغیرہ ہیں،جس طرح ایک انسان اپنے ہرعضوکا محتاج ہے اور ایک کے بغیر اس کے جسمانی نظام کو نقصان پہونچ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بادشاہ کو چاہیے کہ ارکان دولت واصحاب مناصب کو ان کی اہلیت و استعداد کے مطابق ان کی دیانت اور نیک سیرت کو معلوم کر کے اوراچھی طرح پرکھ کر مختلف حصوں میں مقرر کرے، اوراختیا ر دے تاکہ وہ اپنے کاموں کو پورے شرائط کے ساتھ ملک کی مصالح اور دربار کی بہبودی کے مطابق انجام دیں اور بادشاہ ان کے کاموں سے باخبر رہے“۔
حضرت غوث العالم کی ان تعلیمات کا اثر ان کے مرید مخلص سلطان ابراہیم شاہ شرقی پر نہایت گہرا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے حضرت کی تعلیمات پرعمل کر کے اپنی حکومت کو گلزار بنادیا۔
مؤرخین اورتذکرہ نویسوں نے اس بادشاہ کو ”دین پناہ“ ”علمائے شریعت کا قدردان“ ”درویش دوست“ اور”رعیت پرور“ لکھا ہے۔تاریخ فرشتہ میں ہے:۔
”ابراہیم شرقی کے زما نہ میں جونپور کاہر چھوٹا بڑا بادشاہ کے وجودکو باعث برکت سمجھتا اور بیحد عیش و آرام کے ساتھ زندگی بسرکرتاتھا۔ شاہ و گدا سب خوش و خرم تھے، ملک میں حزن اندوہ کا نام ونشان نہ تھا“۔
صاحب مرأۃ الاسرار نے لکھا ہے:۔
”سلطان ابراہیم بادشاہ نیک و درویش ورعیت پرور بود، خلائق بعہداودر عہد امن و آسائش قرار گرفت“
سلطان ابراہیم نیک،در ویش دوست اور رعیت پرور تھا، مخلوق اس کے زمانے میں امن وآرام و سکون کے گہوارے میں تھی۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972